حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،دہلی/ ابھی وسیم جیسے ملعون کی ہرزہ سرائی پر مچا گھمسان تھما ہی نہیں کہ دریدہ ذہنیت کا مالک بھگوا داری نرسیہانند سرسوتی نے اپنے خام خیالی میں ایک اور ستون اسلام کو منہدم کرنے کی کوشش کی اور نبی کریم کی شان میں گستاخی کی ناقابل برداشت جرم کا ارتکاب کر بیٹھا۔
دہلی میں مقیم اہل بیت (ع) فاؤنڈیشن ہندوستان کے نائب صدر حجۃ الاسلام مولانا تقی عباس رضوی نے کہا کہ سوامی نرسیہانند سرسوتی جیسے جاہل، مجہول النسب فرقہ پرست لوگوں کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پہلے آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے عہدیدار راکیش تیواری نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرکے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہونچائی تھی، مگر حکومت نے ان سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر ان جیسے لوگوں کو مجرمانہ عمل کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا اور نہ کبھی کوئی ان پر سخت کاروائی ہوئی لہٰذا ملک میں فرقہ پرست لوگ بے خوف ہوکر سماج میں زہر اگلنے کے جرائم کو انجام دے رہے ہیں ۔
مزید بیان کیا کہ ان چند سالوں میں ہندوستانی ریاستوں میں جرم و جنایت اور ظلم و زیادتی کی شرح اپنے بام عروج پر ہے اور حکومت اس پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہورہی ہے جو در اصل ملک کی حکومت اور اس کی عدلیہ کے منھ پر طمانچے سے کم نہیں ہے. ایک طرف حکومت تو جرائم پیشوں کے خلاف ’زیرو ٹولرینس پالیسی‘ کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف وسیم رضوی اور سوامی سرسوتی جیسے بدنام زمانہ لوگ ملک میں کھلے عام نفرت پھیلاتے گھوم رہے ہیں! سوامی کی اس زہر آلود ہرزہ سرائی پر مسلمانوں میں سخت غم و غصہ پایا جارہا ہے اور اس کے خلاف شدید ردعمل پیدا بھی ہوگا لہذا حکومت ایسے افراد کے خلاف سخت کاروائی کرے اور فوراً انہیں حراست میں لے..ورنہ بلا تفریق مسلک و مذہب تمام ہی لوگ اس ہرزہ سرائی پر سراپا احتجاج بن جائیں گے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین اور فرقہ واریت ہندوستان جیسے سیکولر ملک کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر اگر ہم 1857 کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو گنگا جمنی تہذیب میں فرقہ وارانہ رشتے کے لحاظ سے حد فاصل ہے۔ اس سے قبل یہاں کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں تھا، کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوتے تھے، ہندو اور مسلمان ایک ساتھ صلح آشتی کے ساتھ رہتے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے. اس سے پہلے ملک کے بیشتر حصوں میں کسی قسم کے فرقہ پرست جذبات نہیں تھے۔اور یہی ہندوستان جیسی گنگا جمنی تہذیب کا حسن تھا کہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان بعض اختلافات ہونے کے باوجود ان میں کوئی مخاصمت نہیں تھی۔ ہندو عید اور محرم کے تہوار میں شرکت کرتے تھے اور مسلمان ہولی اور دیوالی کے جشن میں شامل ہوتے تھے اور دونوں بھائی بہنوں کی طرح رہتے تھے مگر اب! لوگ ایک دوسرے کے گریبان گیر نظر آتے ہیں جے شری رام کے نعروں کو ظلم و تشدد کا وسیلہ بنا کر ایک دوسرے کا خون کرنا تک مباح گردانتے ہیں ! اور تو اور جس ملک کو مسلمان نے اپنے تن من دھن سے سنوارا آج انہیں یہاں روزگار اور کرایے پر مکان حاصل کرنے میں بھی دشواری ہو رہی ہے۔
مولانا تقی عباس نے کہا کہ جب بھی کوئی بم دھماکہ یا کسی بھی قسم کی واردات ہوتی ہے تو پولیس اصل مجرموں کو پکڑنے کے بجائے (کیونکہ انھیں سائنسی بنیادوں پر تفتیش کی تربیت نہیں ہے) نصف درجن مسلمانوں کو ہی پکڑ کر مسئلے کو حل کرتی ہے!جسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہیں موجودہ حکومت چارلس ووڈ کے نقش قدم پر تو نہیں چل رہی ہے کہ جس نے وائس رائے لارڈ الجن کو سنہ 1862 میں ایک خط لکھا کہ ’ہم نے بھارت میں اپنا اقتدار ایک برادری کو دوسری برادری کے خلاف کھڑا کر کے قائم رکھا ہے اور ہمیں اسے جاری رکھنا چاہیے۔ اس لیے ان کو ایک متحد احساس سے باز رکھنے کے لیے آپ جو کچھ کر سکتے ہیں کریں۔ موجودہ سیاسی صورتحال ملک کے تمام مکاتب فکر کے لئے قابلِ غور لمحہ فکریہ ہے۔